آنکھوں میں ہیں حقیر جس تس کے
نظروں سے گر گئے ہیں ہم کس کے
دل کا ہمدم علاج مت کر اب
زخم مرہم پذیر ہیں اس کے
کون آتا ہے ایسا ہوش ربا
صبر و طاقت یہاں سے کیوں کھسکے
دیکھتی ہے یہ کس کی آنکھوں کو
کیوں کھلے ہیں یہ چشم نرگس کے
بس کہیں تھک بھی آسیائے فلک
ہو چکے سرمہ ہم تو اب پس کے
جی سے رہتے ہیں اپنے اس پہ نثار
دل سے ہوتے ہیں دوست ہم جس کے
گو نہیں اب کبھی تو اے پیارے
ہم بھی تھے یار تیری مجلس کے
تو تو خوش ہے کہ تیرے کوچہ میں
ایک تڑپا کرے اور اک سسکے
مر گئے پر بھی یہ حسنؔ نہ مندے
منتظر چشم تھے ترے کس کے
غزل
آنکھوں میں ہیں حقیر جس تس کے
میر حسن