آنکھوں میں ہے پر آنکھ نے دیکھا نہیں ابھی
وہ بت جسے کہ میں نے تراشا نہیں ابھی
لفظوں کے پتھروں میں صنم بے شمار ہیں
میرے ہی پاس سوچ کا تیشا نہیں ابھی
صدیوں سے نقش ہے جو تصور پہ شاہکار
کاغذ پہ اس کا عکس اتارا نہیں ابھی
برسوں سے میرے سر پہ ہے ٹکڑا اک ابر کا
جل بجھ چکا ہے جسم وہ برسا نہیں ابھی
جینے سے بھر چکا ہے دل زار کیا کروں
مرنے کی آرزو و تمنا نہیں ابھی
مانند ملک روم لٹی گھر کی سلطنت
یاروں یہ سانحہ مجھے بھولا نہیں ابھی
شاہدؔ نگار خانۂ صد رنگ ہے جہاں
پھر بھی وہ نقش آنکھ سے اترا نہیں ابھی

غزل
آنکھوں میں ہے پر آنکھ نے دیکھا نہیں ابھی
شاہد شیدائی