EN हिंदी
آنکھوں میں اگر آپ کی صورت نہیں ہوتی | شیح شیری
aankhon mein agar aap ki surat nahin hoti

غزل

آنکھوں میں اگر آپ کی صورت نہیں ہوتی

سرفراز ابد

;

آنکھوں میں اگر آپ کی صورت نہیں ہوتی
اس دل میں محبت کسی صورت نہیں ہوتی

جب تک پس پردہ وہ چھپے بیٹھے رہیں گے
کچھ بھی یہاں ہو جائے قیامت نہیں ہوتی

دیکھے جو تجھے لوگ تو سمجھے مرے اشعار
لفظوں سے تو شعروں کی وضاحت نہیں ہوتی

کیا اور کوئی کام کرے چھوڑیئے صاحب
بیکاری سے دنیا میں فراغت نہیں ہوتی

شہروں کے تصور سے بھی گھبرانے لگا دل
صحرا میں چلے جاؤ تو وحشت نہیں ہوتی

اس عمر میں بڑھ جاتے ہیں محنت کے تقاضے
جس عمر میں انسان سے محنت نہیں ہوتی

ہوتی تھی ہر ایک بات پہ حیرت مجھے پہلے
اب مجھ کو کسی بات پہ حیرت نہیں ہوتی

برباد ابدؔ ہم کو مروت نے کیا ہے
سب ہوتا جو آنکھوں میں مروت نہیں ہوتی