آنکھوں کو سوجھتا ہی نہیں کچھ سوائے دوست
کانوں میں آ رہی ہے برابر صدائے دوست
کیسی وفا ستم سے بھی اس نے اٹھائے ہاتھ
رہ رہ کے یاد اب آتی ہے طرز جفائے دوست
سینے میں داغ ہائے محبت کی ہے بہار
پھولا ہے خوب یہ چمن دل کشائے دوست
دل میں مرے جگر میں مرے آنکھ میں مری
ہر جا ہے دوست اور نہیں ملتی ہے جائے دوست
مدت سے پاؤں توڑے ہوئے بیٹھے تھے شرفؔ
آخر اڑا کے لے ہی چلی اب ہوائے دوست
غزل
آنکھوں کو سوجھتا ہی نہیں کچھ سوائے دوست
شرف مجددی