آنکھوں کو میسر کوئی منظر ہی نہیں تھا
سر میرا گریبان سے باہر ہی نہیں تھا
بے فیض ہوائیں تھیں نہ سفاک تھا موسم
سچ یہ ہے کہ اس گھر میں کوئی در ہی نہیں تھا
سر چین سے رکھا نہ رکے پاؤں کے دل میں
اک بات بھی پیوست تھی خنجر ہی نہیں تھا
ہم ہار تو جاتے ہی کہ دشمن کے ہمارے
سو پیر تھے سو ہاتھ تھے اک سر ہی نہیں تھا
صحرا میں وہ سب کچھ تھا جو تھا شہر میں اپنے
اک نفع و نقصان کا دفتر ہی نہیں تھا
ہاتھوں پہ دھرا سر کو سہیلؔ اور چلے ہم
اب باب کوئی اور میسر ہی نہیں تھا

غزل
آنکھوں کو میسر کوئی منظر ہی نہیں تھا
سہیل احمد زیدی