EN हिंदी
آنکھوں کو چمک چہرے کو اک آب تو دیجے | شیح شیری
aankhon ko chamak chehre ko ek aab to dije

غزل

آنکھوں کو چمک چہرے کو اک آب تو دیجے

سید فضل المتین

;

آنکھوں کو چمک چہرے کو اک آب تو دیجے
جھوٹا ہی سہی آپ کوئی خواب تو دیجے

ہم سنگ گراں ہیں خس و خاشاک ہیں کیا ہیں
معلوم ہو پہلے کوئی سیلاب تو دیجے

ہم جام بکف بیٹھے رہیں اور کہاں تک
تقدیر میں امرت نہیں زہراب تو دیجے

ہم کو بھی ہے یہ شوق کہ ڈوبیں کبھی ابھریں
ہو گردش ایام کا گرداب تو دیجے

مدہوش نہ کر دیں جو زمانہ کو تو کہنا
ہاتھوں میں ہمارے کوئی مضراب تو دیجے

مرنے کی ہوس ہے ہمیں دیوانے ہوئے ہیں
جینے کے اگر پاس ہوں آداب تو دیجے

ویرانوں کو گلشن ہی بنائیں گے متینؔ ہم
کھلنے ذرا اک غنچۂ شاداب تو دیجے