EN हिंदी
آنکھوں کو اشک بار کیا ہے کبھی کبھی | شیح شیری
aankhon ko ashk-bar kiya hai kabhi kabhi

غزل

آنکھوں کو اشک بار کیا ہے کبھی کبھی

مرغوب اثر فاطمی

;

آنکھوں کو اشک بار کیا ہے کبھی کبھی
یوں تیرا انتظار کیا ہے کبھی کبھی

محشر کو درکنار کیا ہے کبھی کبھی
تجھ پر جو اعتبار کیا ہے کبھی کبھی

خون جگر سے ہم نے گلوں کو نکھار کر
گلشن کو پر بہار کیا ہے کبھی کبھی

اس آستانہ ناز سے نفرت بھی کی مگر
سجدہ بھی بار بار کیا ہے کبھی کبھی

ہم نے تمہاری یاد کے داغوں سے بھر کے دل
دل گشتۂ بہار کیا ہے کبھی کبھی

ساقی نے دے کے جام کیا ہم کو شادماں
واعظ نے سوگوار کیا ہے کبھی کبھی

مرغوبؔ تیری دی ہوئی دیوانگی کا فیض
ہستی کو تار تار کیا ہے کبھی کبھی