آنکھوں کو اب نگاہ کی عادت نہیں رہی
اب کچھ بھی دیکھنے کی ضرورت نہیں رہی
سچائیوں کی راہ بہت ہو گئی کٹھن
اس راستے پہ چلنے کی ہمت نہیں رہی
دشمن ہو دوست ہو کوئی اپنا کہ غیر ہو
ہم کو تو اب کسی کی بھی حاجت نہیں رہی
دنیا عزیز تر رہی اک عرصۂ دراز
لیکن اب اس کی بھی تو محبت نہیں رہی
عرصہ ہوا کسی نے پکارا نہیں مجھے
شاید کسی کو میری ضرورت نہیں رہی
کانٹا سا ایک دل میں کھٹکتا ہے مستقل
پر دل کی بات کہنے کی عادت نہیں رہی
سرمایۂ حیات ہوا چاہتا ہے ختم
جس پر غرور تھا وہی دولت نہیں رہی
بشریٰؔ کبھی جو جاؤ وہاں عرض حال کو
کہنا کہ ہم پہ اب وہ عنایت نہیں رہی

غزل
آنکھوں کو اب نگاہ کی عادت نہیں رہی
بشریٰ ہاشمی