EN हिंदी
آنکھوں کی ندی سوکھ گئی پھر بھی ہرا ہے | شیح شیری
aankhon ki nadi sukh gai phir bhi hara hai

غزل

آنکھوں کی ندی سوکھ گئی پھر بھی ہرا ہے

اصغر گورکھپوری

;

آنکھوں کی ندی سوکھ گئی پھر بھی ہرا ہے
وہ درد کا پودا جو مرے دل میں اگا ہے

جاں دے کے بھی چاہوں تو اسے پا نہ سکوں میں
وہ چاند کا ٹکڑا جو دریچے میں جڑا ہے

سیلاب ہیں چہروں کے تو آواز کے دریا
یہ شہر تمنا تو نہیں دشت‌ صدا ہے

اصغرؔ یہ سفر شوق کا اب کیسے کٹے گا
جو ہم نے تراشا تھا وہ بت ٹوٹ گیا ہے