آنکھوں کی ندی سوکھ گئی پھر بھی ہرا ہے
وہ درد کا پودا جو مرے دل میں اگا ہے
جاں دے کے بھی چاہوں تو اسے پا نہ سکوں میں
وہ چاند کا ٹکڑا جو دریچے میں جڑا ہے
سیلاب ہیں چہروں کے تو آواز کے دریا
یہ شہر تمنا تو نہیں دشت صدا ہے
اصغرؔ یہ سفر شوق کا اب کیسے کٹے گا
جو ہم نے تراشا تھا وہ بت ٹوٹ گیا ہے
غزل
آنکھوں کی ندی سوکھ گئی پھر بھی ہرا ہے
اصغر گورکھپوری