آنکھوں کے کشکول شکستہ ہو جائیں گے شام کو
دن بھر چہرے جمع کئے ہیں کھو جائیں گے شام کو
سارے پیڑ سفر میں ہوں گے اور گھروں کے سامنے
جتنے پیڑ ہیں اتنے سائے لہرائیں گے شام کو
دن کے شور میں شامل شاید کوئی تمہاری بات بھی ہو
آوازوں کے الجھے دھاگے سلجھائیں گے شام کو
شام سے پہلے درد کی دولت موجیں ہیں بے نام سی
دریاؤں سے مل کے دریا بل کھائیں گے شام کو
صبح سے آنگن میں آندھی ہے اندھیارا ہے دھول ہے
شاید آگ چرانے والے گھر آئیں گے شام کو

غزل
آنکھوں کے کشکول شکستہ ہو جائیں گے شام کو
رئیس فروغ