آنکھوں کے چراغ وارتے ہیں
آ تیری نظر اتارتے ہیں
چلو بھر خون بھیک مل جائے
ہم کاسۂ سر پسارتے ہیں
رکھتے نہیں سادہ صفحۂ دل
ناخون کے نقش ابھارتے ہیں
ہر رات دفاع شہر جاں کو
ہاری ہوئی فوج اتارتے ہیں
محنت سے بسا دیا ہے صحرا
اب گھر کی طرف سدھارتے ہیں
بنتے ہیں لکیریں کالی نیلی
کاغذ کی جبیں سنگھارتے ہیں
روتا ہے کوئی کسی کے غم میں
سب اپنے ہی دکھ بچارتے ہیں
جیسی کہ گزر رہی ہے خسروؔ
کچھ اس سے الگ گزارتے ہیں
غزل
آنکھوں کے چراغ وارتے ہیں
اقبال خسرو قادری