آنکھوں دیکھی بات کہانی لگتی ہے
نئی نئی سی ریت پرانی لگتی ہے
دشت نوردی لگتی ہے سوغات تری
شب بے داری کوئی نشانی لگتی ہے
تاشوں کا تھا کھیل سہانا بچپن کا
چھو منتر سی بھری جوانی لگتی ہے
شام ہوئی تو کالے سائے امڈ پڑے
صبح کو تو ہر چیز سہانی لگتی ہے
مریم جیسی دھلی دھلی اک مورت سی
میرا جیسی کوئی دوانی لگتی ہے
چہرا آنکھیں ہونٹ تمہارے جیسے ہیں
صورت پھر بھی کیوں انجانی لگتی ہے
ٹوٹے جیسے کوئی کھلونا مٹی کا
پتھر جیسی سخت جوانی لگتی ہے
غزل
آنکھوں دیکھی بات کہانی لگتی ہے
شاہد ماہلی