EN हिंदी
آنکھیں زمین اور فلک دست کار ہیں | شیح شیری
aankhen zamin aur falak dastkar hain

غزل

آنکھیں زمین اور فلک دست کار ہیں

سرفراز آرش

;

آنکھیں زمین اور فلک دست کار ہیں
پانی کے جتنے روپ ہیں سب مستعار ہیں

خود کو اکیلا جان کے تنہا نہ جاننا
یہ آئنہ نہیں ہیں ترے پہرے دار ہیں

مشکل کی اس گھڑی میں کروں کس سے مشورہ
کچھ دوست ہیں تو وہ بھی فسانہ نگار ہیں

یہ چھاؤں جیسی دھوپ ہمارا مزاج ہے
ہم لوگ آفتاب ہیں اور سایہ دار ہیں

آرشؔ جو میرے سر پہ نہیں ہو سکے سوار
وہ سارے لوگ میری کمر پر سوار ہیں