آنکھیں کس کا کھوج لگاتی رہتی ہیں
شکلیں اپنا آپ چھپاتی رہتی ہیں
آنے والے دنوں کی دھندلی تصویریں
گئے دنوں کے خواب دکھاتی رہتی ہیں
موسم کے روداد رقم کرنے کے لیے
شاخیں اپنے ہاتھ کٹاتی رہتی ہیں
مٹی کیوں رنگوں کو ظاہر کرتی ہے
خوشبوئیں کیوں خاک اڑاتی رہتی ہیں
کون ہوائیں ہیں جو لوح عالم پر
آنکھیں چہرہ ہاتھ بناتی رہتی ہیں
تنہائی میں خاموشی کی آوازیں
مجھ کو میرا نام بتاتی رہتی ہیں
ساری رات گلی کے خالی نکڑ پر
تیز ہوائیں لیمپ ہلاتی رہتی ہیں

غزل
آنکھیں کس کا کھوج لگاتی رہتی ہیں
نذیر قیصر