آنکھیں کھلی تھیں سب کی کوئی دیکھتا نہ تھا
اپنے سوا کسی کا کوئی آشنا نہ تھا
یوں کھو گیا تھا حسن ہجوم نگاہ میں
اہل نظر کو اپنی نظر کا پتا نہ تھا
دھندلا گئے تھے نقش محبت کچھ اس طرح
پہچانتی تھی آنکھ تو دل مانتا نہ تھا
تم پاس تھے تمہیں تو ہوئی ہوگی کچھ خبر
اتنا تو اپنا شیشۂ دل بے صدا نہ تھا
کچھ لوگ تھے جنہیں یہ سعادت ہوئی نصیب
ورنہ یہاں کسے سر مہر و وفا نہ تھا
ہر سمت ہو رہا تھا اندھیروں کا ازدحام
شب کٹ چکی تھی اور سویرا ہوا نہ تھا
کیا کیا فراغتیں تھیں تبسمؔ ہمیں کہ جب
دل پر کسی کی یاد کا سایہ پڑا نہ تھا
غزل
آنکھیں کھلی تھیں سب کی کوئی دیکھتا نہ تھا
صوفی تبسم