آنکھیں غم فراق سے ہیں تر ادھر ادھر
غم کا اثر ہے آج برابر ادھر ادھر
تھے جو وفا شعار وہ نذر ستم ہوئے
اب کس کو ڈھونڈھتا ہے ستم گر ادھر ادھر
محفل میں تیرے حسن پہ قربان ہوگا کون
دیوانے چل دیے جو نکل کر ادھر ادھر
ساقی کے ساتھ رونق مے خانہ بھی گئی
ٹوٹے پڑے ہیں شیشہ و ساغر ادھر ادھر
ایسا نہ ہو زمانہ ہنسے تم پر ایک دن
لکھو نہ میرے حال پہ ہنس کر ادھر ادھر
دل میں کبھی ہے درد جگر میں کبھی خلش
جیسے چھپے ہوں سینے میں نشتر ادھر ادھر
اپنی غزل سناؤ شمیمؔ اہل ذوق کو
ضائع کرو نہ فکر کے جوہر ادھر ادھر

غزل
آنکھیں غم فراق سے ہیں تر ادھر ادھر
شمیم فتح پوری