آنکھ ان کو دیکھتی ہے نظارا کیے بغیر
پردہ میں چھپ گئے ہیں وہ پردہ کیے بغیر
ہر چند درد عشق کا درماں نہیں مگر
بنتی نہیں ہے فکر مداوا کیے بغیر
زاہد سے پوچھئے غم دنیا کی عظمتیں
عقبیٰ نہ مل سکی غم دنیا کیے بغیر
جاتے ہیں دل میں چھوڑ کے وہ جلوۂ خیال
بجھتی ہے شمع گھر میں اندھیرا کیے بغیر
اکثر تو دل گرفتگیٔ شوق کی قسم
مجھ تک وہ آ گئے ہیں ارادہ کیے بغیر
ہم کو بھی دیکھنا ہے کہ یہ منکرین عشق
کب تک رہیں گے تیری تمنا کیے بغیر
شعر و ادب کی راہ میں ہے گامزن شکیلؔ
اپنے مخالفین کی پروا کیے بغیر
غزل
آنکھ ان کو دیکھتی ہے نظارا کیے بغیر
شکیل بدایونی