آنکھ تشنہ بھی نہیں ہونٹ سوالی بھی نہیں
یہ صراحی کہ بھری بھی نہیں خالی بھی نہیں
ہم سخی درہم و دینار لئے پھرتے ہیں
شہر نادار میں اب کوئی سوالی بھی نہیں
کیوں گرانے کے لئے درپئے آزار ہیں لوگ
ہم نے بنیاد مکاں کی ابھی ڈالی بھی نہیں
ایسی مکروہ کہانی کی یہ تصویر ہے جو
سننے والی بھی نہیں دیکھنے والی بھی نہیں
محسنؔ احساں کا ہے انداز جنوں سب سے الگ
یہ جلالی بھی نہیں ہے یہ جمالی بھی نہیں
غزل
آنکھ تشنہ بھی نہیں ہونٹ سوالی بھی نہیں
محسن احسان