آنکھ سے ٹوٹ کر گری تھی نیند
وہ جو مدہوش ہو چکی تھی نیند
میری آنکھوں کے کیوں جھروکے تک
آ کے چپ چاپ سی کھڑی تھی نیند
کس نے چھیڑا ہوا کے لہجے میں
کیسی خاموش سی پڑی تھی نیند
نیلی آنکھوں کی کر رہا تھا میں
جب تلاوت تو جل گئی تھی نیند
کتنی پر لطف تھیں مری راتیں
ان دنوں جب ہری بھری تھی نیند
چاند میرے سرہانے بیٹھا تھا
اور بغل میں کھڑی ہوئی تھی نیند
جب تلک میں کواڑ کرتا بند
ساجدؔ مجھ دور جا چکی تھی نیند
غزل
آنکھ سے ٹوٹ کر گری تھی نیند
ساجد حمید