EN हिंदी
آنکھ سے ہجر گرا دل نے دہائی دی ہے | شیح شیری
aankh se hijr gira dil ne duhai di hai

غزل

آنکھ سے ہجر گرا دل نے دہائی دی ہے

وقاص عزیز

;

آنکھ سے ہجر گرا دل نے دہائی دی ہے
عشق والوں کی کہاں چیخ سنائی دی ہے

رات کی شاخ ہلی اور گرے پیلے پھول
درد کے پیڑ نے یوں ہم کو کمائی دی ہے

شور اتنا کہ سنائی نہ دیا تھا کچھ بھی
آنکھ کھولی ہے تو آواز دکھائی دی ہے

اب نئے وصل کی صورت ہے نکلنے والی
ہجر نے میرے تجسس کو رسائی دی ہے

دن کی پرچھائیں میں اک عکس لرزتا دیکھا
شام ڈھلتے ہی وہی شکل دکھائی دی ہے