آنکھ سے دل میں آنے والا
دل سے نہیں اب جانے والا
گھر کو پھونک کے جانے والا
پھر کے نہیں ہے آنے والا
دوست تو ہے نادان ہے لیکن
بے سمجھے سمجھانے والا
آنسو پونچھ کے ہنس دیتا ہے
آگ میں آگ لگانے والا
ہے جو کوئی تو دھیان اسی کا
آنے والا جانے والا
حسن کی بستی میں ہے یارو
کوئی ترس بھی کھانے والا
ڈال رہا ہے کام میں مشکل
مشکل میں کام آنے والا
دی تھی تسلی یہ کس دل سے
چپ نہ ہوا چلانے والا
خواب کے پردے میں آتا ہے
سوتا پا کے جگانے والا
اک دن پردہ خود الٹے گا
چھپ چھپ کے ترسانے والا
آرزوؔ ان کے آگے ہے چپ کیوں
تم سا باتیں بنانے والا
غزل
آنکھ سے دل میں آنے والا
آرزو لکھنوی