آنکھ پتھر کی طرح عکس سے خالی ہوگی
خون ناحق کی مگر جسم پہ لالی ہوگی
مل کے بیٹھیں گے وہی لوگ ادھورے آدھے
پھر وہی میز وہی سرد پیالی ہوگی
ایسے موسم میں وہ چپ چاپ نظر جو آیا
اس نے آنکھوں میں کوئی شکل بسا لی ہوگی
میں نے جو چیز گنوا دی اسے ہیرا کہہ کے
کسی نادار مسافر نے اٹھا لی ہوگی
اس کو لفظوں میں اتاروں تو ورق ہوں روشن
اس کی تصویر بنا لوں تو مثالی ہوگی
مل بھی جائے مری خواہش کا صلہ جو مجھ کو
روح اپنی وہی مجبور سوالی ہوگی
یار فکریؔ یہ چمکتے ہوئے جگنو رکھ لے
رات جنگل کی ابھی اور بھی کالی ہوگی
غزل
آنکھ پتھر کی طرح عکس سے خالی ہوگی
پرکاش فکری