آنکھ پڑتی ہے کہیں پاؤں کہیں پڑتا ہے
سب کی ہے تم کو خبر اپنی خبر کچھ بھی نہیں
شمع ہے گل بھی ہے بلبل بھی ہے پروانہ بھی
رات کی رات یہ سب کچھ ہے سحر کچھ بھی نہیں
حشر کی دھوم ہے سب کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے
فتنہ ہے اک تری ٹھوکر کا مگر کچھ بھی نہیں
نیستی کی ہے مجھے کوچۂ ہستی میں تلاش
سیر کرتا ہوں ادھر کی کہ جدھر کچھ بھی نہیں
لا مکاں میں بھی تو اک جلوہ نظر آتا ہے
بے کسی میں تو ادھر ہوں کہ جدھر کچھ بھی نہیں
ایک آنسو بھی اثر جب نہ کرے اے تشنہؔ
فائدہ رونے سے اب دیدۂ تر کچھ بھی نہیں
غزل
آنکھ پڑتی ہے کہیں پاؤں کہیں پڑتا ہے (ردیف .. ن)
محمد علی تشنہ