EN हिंदी
آنکھ پڑتی ہے کہیں پاؤں کہیں پڑتا ہے (ردیف .. ن) | شیح شیری
aankh paDti hai kahin panw kahin paDta hai

غزل

آنکھ پڑتی ہے کہیں پاؤں کہیں پڑتا ہے (ردیف .. ن)

محمد علی تشنہ

;

آنکھ پڑتی ہے کہیں پاؤں کہیں پڑتا ہے
سب کی ہے تم کو خبر اپنی خبر کچھ بھی نہیں

شمع ہے گل بھی ہے بلبل بھی ہے پروانہ بھی
رات کی رات یہ سب کچھ ہے سحر کچھ بھی نہیں

حشر کی دھوم ہے سب کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے
فتنہ ہے اک تری ٹھوکر کا مگر کچھ بھی نہیں

نیستی کی ہے مجھے کوچۂ ہستی میں تلاش
سیر کرتا ہوں ادھر کی کہ جدھر کچھ بھی نہیں

لا مکاں میں بھی تو اک جلوہ نظر آتا ہے
بے کسی میں تو ادھر ہوں کہ جدھر کچھ بھی نہیں

ایک آنسو بھی اثر جب نہ کرے اے تشنہؔ
فائدہ رونے سے اب دیدۂ تر کچھ بھی نہیں