EN हिंदी
آنکھ نے دھوکہ کھایا تھا یا سایا تھا | شیح شیری
aankh ne dhoka khaya tha ya saya tha

غزل

آنکھ نے دھوکہ کھایا تھا یا سایا تھا

انعام ندیمؔ

;

آنکھ نے دھوکہ کھایا تھا یا سایا تھا
وہ کھڑکی میں آیا تھا یا سایا تھا

دروازے کے پیچھے اک پرچھائیں تھی
اس نے ہاتھ ہلایا تھا یا سایا تھا

ایک لکیر دھوئیں کی تھی یا خوشبو کی
رنگ کوئی لہرایا تھا یا سایا تھا

ابھی جو میرے پاس تھا شاید اپنا تھا
شاید کوئی پرایا تھا یا سایا تھا

نیند سے جاگا ہوں تو بیٹھا سوچتا ہوں
خواب میں اس کو پایا تھا یا سایا تھا