EN हिंदी
آنکھ لگ جاتی ہے پھر بھی جاگتا رہتا ہوں میں | شیح شیری
aankh lag jati hai phir bhi jagta rahta hun main

غزل

آنکھ لگ جاتی ہے پھر بھی جاگتا رہتا ہوں میں

سورج نرائن

;

آنکھ لگ جاتی ہے پھر بھی جاگتا رہتا ہوں میں
نیند کے عالم میں کیا کیا سوچتا رہتا ہوں میں

تیرتی رہتی ہیں میرے خوں میں غم کی کرچیاں
کانچ کی صورت بدن میں ٹوٹتا رہتا ہوں میں

سانپ کے مانند کیوں ڈستی ہے باہر کی فضا
کیوں حصار جسم میں محبوس سا رہتا ہوں میں

پھینکتا رہتا ہے پتھر کون دل کی جھیل میں
دائرہ در دائرہ کیوں پھیلتا رہتا ہوں میں

ٹہنیاں کٹ کٹ کے اگ آتی ہیں پھر سے درد کی
اک صنوبر کرب کا بن کر ہرا رہتا ہوں میں

اس سے بڑھ کر اور کیا ہوتی پریشانی مجھے
یہ ستم کم ہے کہ خود سے بھی جدا رہتا ہوں میں