EN हिंदी
آنکھ کچھ بے سبب ہی نم تو نہیں | شیح شیری
aankh kuchh be-sabab hi nam to nahin

غزل

آنکھ کچھ بے سبب ہی نم تو نہیں

علی جواد زیدی

;

آنکھ کچھ بے سبب ہی نم تو نہیں
یہ کہیں آپ کا کرم تو نہیں

ہم نے مانا کہ روشنی کم ہے
پھر بھی یہ صبح شام غم تو نہیں

عشق میں بندشیں ہزار سہی
بندش دانہ و درم تو نہیں

تھا کہاں عشق کو سلیقۂ غم
وہ نظر مائل کرم تو نہیں

مونس شب رفیق تنہائی
درد دل بھی کسی سے کم تو نہیں

وہ کہاں اور کہاں ستم گاری
کچھ بھی کہتے ہوں لوگ ہم تو نہیں

شکوے کی بات اور ہے ورنہ
لطف پیہم کوئی ستم تو نہیں

دیکھ اے قصہ گوئے رنج فراق
نوک مژگان یار نم تو نہیں

ان کے دل سے سوال کرتا ہے
یہ تبسم شریک غم تو نہیں