آنکھ کی ضد کو ہمیشہ ہی سے بہلایا گیا
ایک چہرے کو کئی چہروں میں دکھلایا گیا
میرے پاؤں نت نئے رستوں سے تھے کب آشنا
صدیوں پہلے تھا جہاں مجھ کو وہیں پایا گیا
پھر ہوئی بیدار خواہش آنکھ میں آئی چمک
پھر کسی کو دھوپ سا ملبوس پہنایا گیا
سننے والوں نے تو دیکھا بھی نہیں تھا چونک کر
راز سینے سے نکل کے ہونٹ پر آیا گیا
اس قدر تھا سنگ دل جیسے کسی قاتل کا دل
مجھ سے وہ ماحول اے خالدؔ نہ اپنایا گیا

غزل
آنکھ کی ضد کو ہمیشہ ہی سے بہلایا گیا
خالد شیرازی