EN हिंदी
آنکھ کھلنے پہ بھی ہوتا ہوں اسی خواب میں گم | شیح شیری
aankh khulne pe bhi hota hun usi KHwab mein gum

غزل

آنکھ کھلنے پہ بھی ہوتا ہوں اسی خواب میں گم

اکرم محمود

;

آنکھ کھلنے پہ بھی ہوتا ہوں اسی خواب میں گم
دیر تک رہتا ہوں اک لذت نایاب میں گم

سوچ ہی سوچ میں طوفان اٹھا دیتا ہوں
اور ہو جاتا ہوں اک موجۂ گرداب میں گم

اک ستارہ جو چمکتا ہے لب بام کہیں
دیکھتے دیکھتے ہو جاتا ہے مہتاب میں گم

بچ رہے سانس تو جانا ہے انہیں گلیوں میں
اور ہونا ہے اسی حلقۂ احباب میں گم

ایسے نشے سے سوا اور نشہ کیا ہوتا
آپ کا خواب جو ہو جاتا مرے خواب میں گم

سجدۂ شوق کے ماتھوں سے نشاں مٹنے لگے
ہو گئی رسم اذاں گنبد و محراب میں گم

گم تو ہونا تھا بہ ہر حال کسی منظر میں
دل ہوا خواب میں گم آنکھ ہوئی آب میں گم