آنکھ کے کنج میں اک دشت تمنا لے کر
اجنبی دیس کو نکلے دل تنہا لے کر
دیکھ تو کھول کے تاریک مکاں کی کھڑکی
ہم ترے شہر میں آئے ہیں اجالا لے کر
ہم بھی پہنچے تھے گلستاں میں سکوں کی خاطر
آ گئے ذہن میں تپتا ہوا صحرا لے کر
اب نگاہوں کی جراحت کو لیے سوچتے ہیں
کیوں گئے بزم میں ہم ذوق تماشا لے کر
کب سے فریاد بہ لب آب طلب ہے شیریں
آج فرہاد بھی نکلا نہیں تیشہ لے کر
رو سیہ تیرے بنے چشم و چراغ زنداں
گھوم اب شہر میں تو چہرۂ زیبا لے کر
اس چکا چوند میں اب مجھ کو دکھائی کیا دے
آ گئے آپ تو اک نور کا دریا لے کر
جب بھی حالات کے شعلوں میں گھرا ہوں بیتابؔ
آ ہی پہنچا ہے کوئی پھول سا چہرہ لے کر
غزل
آنکھ کے کنج میں اک دشت تمنا لے کر
سلیم بیتاب