آنکھ ہے اک کٹورا پانی کا
اور یہ حاصل ہے زندگانی کا
رائیگاں کر گیا مجھے آخر
خوف ایسا تھا رائیگانی کا
چل نکلتا ہے سلسلہ اکثر
خوش گمانی سے بد گمانی کا
درد بوتا ہوں زخم کھلتے ہیں
ہے بہت شوق باغ بانی کا
کیا ٹھکانہ غم و خوشی کا ہو
دل علاقہ ہے لا مکانی کا
جا کے دریا میں پھینک آیا ہوں
یہ کیا ہے تری نشانی کا
جس کا انجام ہی نہیں کوئی
میں ہوں کردار اس کہانی کا
مدعا نظم ہو نہیں پایا
شعر دھوکہ ہے ترجمانی کا
غزل
آنکھ ہے اک کٹورا پانی کا
سلمان ثروت