EN हिंदी
آنکھ ہے آئنہ ہے مشعل ہے | شیح شیری
aankh hai aaina hai mashal hai

غزل

آنکھ ہے آئنہ ہے مشعل ہے

راحل بخاری

;

آنکھ ہے آئنہ ہے مشعل ہے
کوئی تصویر تو مکمل ہے

اس جگہ شہر ہونا چاہیے تھا
سامنے دیکھیے تو جنگل ہے

میں بھی ایڑی پہ گھوم جاؤں گا
اور یہ بے کلی بھی دو پل ہے

بس مجھے درمیان میں رکھنا
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہے

یہ تو منظر پہ منحصر ہوگا
مدعا دشت ہے کہ بادل ہے