آنکھ ہے آئنہ ہے مشعل ہے
کوئی تصویر تو مکمل ہے
اس جگہ شہر ہونا چاہیے تھا
سامنے دیکھیے تو جنگل ہے
میں بھی ایڑی پہ گھوم جاؤں گا
اور یہ بے کلی بھی دو پل ہے
بس مجھے درمیان میں رکھنا
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہے
یہ تو منظر پہ منحصر ہوگا
مدعا دشت ہے کہ بادل ہے

غزل
آنکھ ہے آئنہ ہے مشعل ہے
راحل بخاری