آنکھ بے قابو ہے دنیا کی طرح
دل ہے پہلو میں تمنا کی طرح
کوئی آواز کوئی گونج نہیں
وقت چپ چاپ ہے صحرا کی طرح
تو ہے اک پھیلتی بڑھتی خوشبو
میں ہوں اک شعلۂ تنہا کی طرح
تو مری راہ میں کیوں حائل ہے
ایک امڈے ہوئے دریا کی طرح
مجھ کو معلوم نہیں تھا اے دوست
تو بھی بیگانہ ہے دنیا کی طرح
دور افق پار ہے شب پچھلے پہر
کوئی ابھرا رخ زیبا کی طرح
شہر میں چاندنی بن کر اترا
چھا گیا نشۂ صہبا کی طرح
بس ترے رنگ حیا کی مانند
ہو بہو تیرے سراپا کی طرح
اب کہاں پاؤں گا میں نقش جمیلؔ
ڈھونڈھتا پھرتا ہوں دریا کی طرح
غزل
آنکھ بے قابو ہے دنیا کی طرح
جمیل یوسف