EN हिंदी
آنکھ بے خواب ہوئی ہے کیسی | شیح شیری
aankh be-KHwab hui hai kaisi

غزل

آنکھ بے خواب ہوئی ہے کیسی

آصف جمال

;

آنکھ بے خواب ہوئی ہے کیسی
یہ ہوا اب کے چلی ہے کیسی

تو مری یاد میں روتا تو نہیں
یہ ہواؤں میں نمی ہے کیسی

سایہ ہے اور کشیدہ کتنا
دھوپ ہے اور کڑی ہے کیسی

کیسا سویا ہے مقدر اپنا
اور زمیں گھوم رہی ہے کیسی

رسم دنیا ہے جسے جانا ہے
ہم پہ افتاد پڑی ہے کیسی

گنگ ہیں زندہ دلان لاہور
رسم پرسش بھی اٹھی ہے کیسی