آنکھ بے خواب ہوئی ہے کیسی
یہ ہوا اب کے چلی ہے کیسی
تو مری یاد میں روتا تو نہیں
یہ ہواؤں میں نمی ہے کیسی
سایہ ہے اور کشیدہ کتنا
دھوپ ہے اور کڑی ہے کیسی
کیسا سویا ہے مقدر اپنا
اور زمیں گھوم رہی ہے کیسی
رسم دنیا ہے جسے جانا ہے
ہم پہ افتاد پڑی ہے کیسی
گنگ ہیں زندہ دلان لاہور
رسم پرسش بھی اٹھی ہے کیسی
غزل
آنکھ بے خواب ہوئی ہے کیسی
آصف جمال