آنگن سے ہی خوشی کے وہ لمحے پلٹ گئے
صحرائے دل سے برسے بغیر ابر چھٹ گئے
رشتوں کا اک ہجوم تھا کہنے کو آس پاس
جب وقت آ پڑا تو تعلق سمٹ گئے
اک سمت تم کھڑے تھے زمانہ تھا ایک سمت
ہم تم سے مل گئے تو زمانے سے کٹ گئے
رسم و رہ جہاں کا تو تھا دائرہ وسیع
اپنی حدوں میں آپ ہی ہم لوگ بٹ گئے
ہمدردیوں کی بھیڑ سحر سے تھی ساتھ ساتھ
جب دھوپ سر پہ آئی تو سائے سمٹ گئے
بیداریوں کے ساتھ تھا ہنگامۂ حیات
نیند آ گئی تو سارے مسائل نپٹ گئے
اس انقلاب دور ترقی کے آفریں
مجمع بڑا ہوا ہے تو انسان گھٹ گئے
غزل
آنگن سے ہی خوشی کے وہ لمحے پلٹ گئے
سیماب سلطانپوری