آنگن آنگن خانہ خرابی ہنستی ہے معماروں پر
پتھر کی چھت ڈھال رہے ہیں شیشے کی دیواروں پر
زخم لگے تو بس یہ جانو چوٹ پڑی نقاروں پر
آج لگا دو جان کی بازی ٹوٹ پڑو تلواروں پر
اہل جنوں کی لالہ کاری موسم کی پابند نہیں
فصل خزاں میں پھول کھلے ہیں زنداں کی دیواروں پر
دل کے افق سے ٹوٹ گئے ہیں کتنے سورج کتنے چاند
ٹپکے ہیں دو چار ستارے جب تیرے رخساروں پر
کہتے ہیں خوش قامت کس کو دیکھ نکل کر گلشن سے
کیسے کیسے سرو رعنا چلتے ہیں انگاروں پر
اس ساحل پر ناؤ پڑی ہے اس ساحل پر مانجھی ہے
بیچ ندی میں تیرتی لاشو پل بن جاؤ دھاروں پر
غزل
آنگن آنگن خانہ خرابی ہنستی ہے معماروں پر
اعزاز افصل