آنے والے حادثوں کے خوف سے سہمے ہوئے
لوگ پھرتے ہیں کہ جیسے خواب ہوں ٹوٹے ہوئے
صبح دیکھا تو نہ تھا کچھ پاس الجھن کے سوا
رات ہم بیٹھے رہے کس سوچ میں ڈوبے ہوئے
اپنے دکھ میں ڈوب کر وسعت ملی کیسی ہمیں
ہیں زمیں سے آسماں تک ہم ہی ہم پھیلے ہوئے
آج آئینے میں خود کو دیکھ کر یاد آ گیا
ایک مدت ہو گئی جس شخص کو دیکھے ہوئے
جسم کی دیوار گر جائے تو کچھ احساس ہو
اپنے اندر ہم پڑے ہیں کس قدر سمٹے ہوئے
کس سے پوچھیں رات بھر اپنے بھٹکنے کا سبب
سب یہاں ملتے ہیں جیسے نیند میں جاگے ہوئے
اس نگر کے جگمگاتے راستوں پر گھوم کر
ہم چلے آئے غموں کی دھول میں لپٹے ہوئے
جن کو اے آزادؔ بخشی تھی مہک ہم نے کبھی
اب وہی رستے ہمارے واسطے کانٹے ہوئے
غزل
آنے والے حادثوں کے خوف سے سہمے ہوئے
آزاد گلاٹی