آنے میں جھجھک ملنے میں حیا تم اور کہیں ہم اور کہیں
اب عہد وفا ٹوٹا کہ رہا تم اور کہیں ہم اور کہیں
بے آپ خوشی سے ایک ادھر کچھ کھویا ہوا سا ایک ادھر
ظاہر میں بہم باطن میں جدا تم اور کہیں ہم اور کہیں
آئے تو خوشامد سے آئے بیٹھے تو مروت سے بیٹھے
ملنا ہی یہ کیا جب دل نہ ملا تم اور کہیں ہم اور کہیں
وعدہ بھی کیا تو کی نہ وفا آتا ہے تمہیں چرکوں میں مزا
چھوڑو بھی یہ ضد لطف اس میں ہے کیا تم اور کہیں ہم اور کہیں
برگشتہ نصیب کا یوں ہونا سونا بھی تو اک کروٹ سونا
کب تک یہ جدائی کا رونا تم اور کہیں ہم اور کہیں
دل ملنے پہ بھی پہلو نہ ملا دشمن تو بغل ہی میں ہے چھپا
قاتل ہے محبت کی یہ حیا تم اور کہیں ہم اور کہیں
یکسوئی دل مرغوب ہمیں بربادئ دل مطلوب تمہیں
اس ضد کا ہے اور انجام ہی کیا تم اور کہیں ہم اور کہیں
دل سے ہے اگر قائم رشتہ تو دور و قریب کی بحث ہی کیا
ہے یہ بھی نگاہوں کا دھوکا تم اور کہیں ہم اور کہیں
سن رکھو قبل عہد وفا قول آرزوئے شیدائی کا
جنت بھی ہے دوزخ گر یہ ہوا تم اور کہیں ہم اور کہیں
غزل
آنے میں جھجھک ملنے میں حیا تم اور کہیں ہم اور کہیں
آرزو لکھنوی