آنے دو اپنے پاس مجھ کو
کرنا ہے کچھ التماس مجھ کو
تیرے یہ جور کب سہوں میں
گر عشق کا ہو نہ پاس مجھ کو
دو طفل مزاج شیشہ دل میں
کس طرح نہ ہو ہراس مجھ کو
لگتا ہے نہ گھر میں دل نہ باہر
کس نے یہ کیا اداس مجھ کو
کیا حال کہوں کہ دیکھ اس کو
رہتے ہی نہیں حواس مجھ کو
اے نکہت گل پری ہی رہ تو
آنا ہے اسی کے پاس مجھ کو
منہ پھیرا بھی نہ اس طرف سے
ٹک ہونے دے روشناس مجھ کو
اٹھ جاؤں گا ایک دن خفا ہو
یہاں تک نہ کرو اداس مجھ کو
گر ہیں یہی جور اس کے بیدارؔ
بچنے کی نہیں ہے آس مجھ کو
غزل
آنے دو اپنے پاس مجھ کو
میر محمدی بیدار