آنے اٹک اٹک کے لگی سانس رات سے
اب ہے امید صرف خدا ہی کی ذات سے
ساقی ہوائے سرد کو تو سرسری نہ جان
کیفیت اس کی پوچھ نبات نبات سے
اپنا صنم وہ قہر ہے اے برہمن کہ گر
دیکھے منات کو تو گرا دیوے لات سے
کل سے تو اختلاط میں تازہ ہے اختراع
رکنے لگی ہیں آپ مری بات بات سے
پیش آئیے بشفقت و لطف اس سے شیخ جی
نبت العنب کو جانئے اپنے نبات سے
حاصل کیا جو ہم نے قدم بوس پیر دیر
آئی صدائے عشق در سومنات سے
ہیں واجب الوجود کے انوار عشق میں
اس کی صفات ذات نہیں ممکنات سے
اشعار طبع زاد مری سن کے شوخ وہ
کہنے لگا کہ فائدہ اس مہملات سے
مطلق ملا کے آنکھ ادھر دیکھتے نہیں
آتے نظر ہو آج بھی کم التفات سے
انشاؔ نے آ لگا ہی لیا تم کو بات میں
ظالم وہ چوکتا ہے کوئی اپنی گھات سے
غزل
آنے اٹک اٹک کے لگی سانس رات سے
انشاءؔ اللہ خاں