آندھیاں اٹھیں فضائیں دور تک کجلا گئیں
اتفاقاً دو چراغوں کی لویں ٹکرا گئیں
آہ یہ مہکی ہوئی شامیں یہ لوگوں کے ہجوم
دل کو کچھ بیتی ہوئی تنہائیاں یاد آ گئیں
اس فضا میں سرسراتی ہیں ہزاروں بجلیاں
اس فضا میں کیسی کیسی صورتیں سنولا گئیں
اے خزاں والو! خزاں والو! کوئی سوچو علاج
یہ بہاریں پاؤں میں زنجیر سی پہنا گئیں
پھر کسی نے چھیڑ دی عذر جہاں کی داستاں
دل پہ جیسے بھیگی بھیگی بدلیاں سی چھا گئیں
غزل
آندھیاں اٹھیں فضائیں دور تک کجلا گئیں
ظہیر کاشمیری