آندھی میں بھی چراغ مگن ہے صبا کے ساتھ
لگتا ہے ساز باز ہوئی ہے ہوا کے ساتھ
لب پر خدا کا نام ہو دل میں وطن کا درد
نکلے بدن سے روح مری اس ادا کے ساتھ
ان کو بہت غرور تھا اپنی جفاؤں پر
ہم بھی وہیں اڑے رہے اپنی وفا کے ساتھ
نظریں جھکا کے سامنے میرے کھڑا ہے وو
شرمندگی کی اپنے بدن پر قبا کے ساتھ
ہر شخص رشک کرتا ہے پھر ایسی ذات پر
مر کر بھی جس کے ربط ہو قائم خدا کے ساتھ
آغاز بھی اسی کی زیارت کے ساتھ ہو
ہو بھی سفر تمام تو ماں کی دعا کے ساتھ
احسان تھا یا حکم کی تعمیل تھی سبینؔ
ہم بی قدم قدم چلے اس کی رضا کے ساتھ
غزل
آندھی میں بھی چراغ مگن ہے صبا کے ساتھ
غوثیہ خان سبین