آنچل جو ڈھلکتا ہے ان کا کبھی شانوں سے
پائل کی صدا آ کر ٹکراتی ہے کانوں سے
اپنی ہی ہلاکت کا باعث ہوئے جاتے ہیں
جو تیر نکلتے ہیں آج اپنی کمانوں سے
ہم نے رہ الفت میں آ کر یہی سیکھا ہے
منزل کا پتہ لینا قدموں کے نشانوں سے
اک بار بھی جو سننا ہم کو نہ گوارا تھا
سو بار سنا ہم نے دنیا کی زبانوں سے
جس نے کبھی دنیا کی پروا ہی نہیں کی تھی
وہ نازؔ سے ملتا ہے اب لاکھ بہانوں سے
غزل
آنچل جو ڈھلکتا ہے ان کا کبھی شانوں سے
ناز لائلپوری