آنا اسی کا بزم سے جانا اسی کا ہے
کس کو پتہ نہیں کہ زمانا اسی کا ہے
اے مطلع ملال ہمارے لیے بھی کچھ
تاروں بھری یہ رات خزانا اسی کا ہے
اس گھر میں کوئی چیز کسی اور کی نہیں
یہ پھول یہ چراغ فسانا اسی کا ہے
اک عہد کر لیا تھا کبھی بھول چوک میں
سانسوں کا یہ وبال بہانا اسی کا ہے
اب اس گلی کے موڑ سے آگے نہ جائیں گے
کہتے ہیں آس پاس ٹھکانا اسی کا ہے
غزل
آنا اسی کا بزم سے جانا اسی کا ہے
شمیم حنفی