EN हिंदी
آنا اسی کا بزم سے جانا اسی کا ہے | شیح شیری
aana usi ka bazm se jaana usi ka hai

غزل

آنا اسی کا بزم سے جانا اسی کا ہے

شمیم حنفی

;

آنا اسی کا بزم سے جانا اسی کا ہے
کس کو پتہ نہیں کہ زمانا اسی کا ہے

اے مطلع ملال ہمارے لیے بھی کچھ
تاروں بھری یہ رات خزانا اسی کا ہے

اس گھر میں کوئی چیز کسی اور کی نہیں
یہ پھول یہ چراغ فسانا اسی کا ہے

اک عہد کر لیا تھا کبھی بھول چوک میں
سانسوں کا یہ وبال بہانا اسی کا ہے

اب اس گلی کے موڑ سے آگے نہ جائیں گے
کہتے ہیں آس پاس ٹھکانا اسی کا ہے