آنا تھا جسے آج وہ آیا تو نہیں ہے
یہ وقت بدلنے کا اشارا تو نہیں ہے
دعوت دے کبھی کیوں وہ محبت سے بلائے
دریا سے مری پیاس کا رشتہ تو نہیں ہے
یہ کون گیا ہے کہ جھپکتی نہیں آنکھیں
رستے میں وہ ٹھہرا ہوا لمحہ تو نہیں ہے
ہنستا ہوا چہرہ ہے دمکتا ہوا پیکر
گزرا ہوا یہ میرا زمانہ تو نہیں ہے
آنکھوں نے ابھی نیند کا دامن نہیں چھوڑا
خوابوں سے بھروسہ ابھی ٹوٹا تو نہیں ہے
دریا میں سر شام ہے ڈوبا ہوا سورج
دن بھر کا مسافر کوئی پیاسا تو نہیں ہے
چھوڑ آئے ہو جس کے لئے آنچل کی گھنی چھاؤں
اس شہر میں وہ دھوپ کا ٹکڑا تو نہیں ہے
رستے میں فہیمؔ اس کی طبیعت کا بگڑنا
گھر جانے کا اک اور بہانہ تو نہیں ہے

غزل
آنا تھا جسے آج وہ آیا تو نہیں ہے
فہیم جوگاپوری