آنا ہے تو آ جاؤ یک آن مرا صاحب
اک آن کے ہیں ہم بھی مہمان مرا صاحب
مدت سے تمہارا میں سو جان سے ہوں عاشق
کیوں جان کے ہوتے ہو انجان مرا صاحب
غصے ہو اٹھے مجھ پر کیوں تیر و کماں لے کر
میں ہونے کو بیٹھا ہوں قربان مرا صاحب
ناگاہ صنم یارو مجھ سے جو ملا آ کر
مجھ پر یہ خدا کا ہے احسان مرا صاحب
یہ بندہ ہو یا تم ہو واں غیر نہ ہو کوئی
اس ڈھب کے ہے ملنے کا ارمان مرا صاحب
کچھ یاد نہیں مجھے کو کافر ہوں مسلماں ہوں
ہے غم میں ترے یاں تک نسیان مرا صاحب
جو عشق کی منزل کے ہیں اہل کمال ان کا
ہے شکر و شکایت میں نقصان مرا صاحب
صاف آئینۂ دل میں روشن ہے جمال اس کا
برعکس ہے اک عالم حیران مرا صاحب
سو طرح کہوں دل کا احوال حضور اس کے
میرے تو نہیں رہنے اوسان مرا صاحب
ہم عشق کی دولت سے اک کنج قناعت میں
کرتے ہیں فقیرانہ گزران مرا صاحب
یاں حد سے قدم باہر رکھنے کوئی پایا ہے
اس جرم میں سر لیں ہیں تاوان مرا صاحب
منصف ہو محبؔ دل میں اس بات کو ٹک سوچے
جب بے سر و ساماں ہو انسان مرا صاحب
کیا ساتھ لے آیا تھا لے جائے گا کیا یاں سے
پھر چاہئے کس خاطر سامان مرا صاحب
معنی میں وہ کاٹیں ہیں اوقات بہت بے غم
جو شخص بہ صورت ہیں عریان مرا صاحب
شمشیر برہنہ کے جوہر نظر آتے ہیں
انصاف کی آنکھوں کے درمیان مرا صاحب
غزل
آنا ہے تو آ جاؤ یک آن مرا صاحب
ولی اللہ محب