آن رکھتا ہے عجب یار کا لڑ کر چلنا
ہر قدم ناز کے غصے میں اکڑ کر چلنا
جتنے بن بن کے نکلتے ہیں صنم نام خدا
سب میں بھاتا ہے مجھے اس کا بگڑ کر چلنا
ناتوانی کا بھلا ہو جو ہوا مجھ کو نصیب
اس کی دیوار کی اینٹوں کو رگڑ کر چلنا
اس کی کاکل ہے بری مان کہا اے افعی
دیکھیو اس سے تو کاندھا نہ رگڑ کر چلنا
چلتے چلتے نہ خلش کر فلک دوں سے نظیرؔ
فائدہ کیا ہے کمینے سے جھگڑ کر چلنا
غزل
آن رکھتا ہے عجب یار کا لڑ کر چلنا
نظیر اکبرآبادی