آموختے کا جال زباں سے لپٹ گیا
بدلی ہوا تو حرف کا پانسہ پلٹ گیا
مجھ سے نکل کے ہیبت شب کا تھا سامنا
سایہ وفور خوف سے پلٹا چمٹ گیا
صد تلخیوں کی شاخ پہ بیٹھی تھی موج نیم
برگد سے آ کے جھونکا ہوا کا پلٹ گیا
تھی شہر انحصار میں پھسلن گلی گلی
میں لڑکھڑا گیا مرا خچر رپٹ گیا
تاریک بے کنار سمندر پڑا رہا
منظر تمام غار کے اندر سمٹ گیا
غزل
آموختے کا جال زباں سے لپٹ گیا
مہدی جعفر