آمر عقل سے شہزادؔ بغاوت کر لیں
آؤ اس شخص سے اقرار محبت کر لیں
کل نہ جانے کہ کسے وقت کہاں لے جائے
آج پل بھر ہی سہی خواب حقیقت کر لیں
اس کو تہمت سے بچانا ہے ہر اک قسمت پر
ہنستے رہنا ہی چلو آج سے عادت کر لیں
کون منزل کے لئے لطف سفر کو کھوئے
چلتے رہنے سے ہی تجدید رفاقت کر لیں
ہم نے سب دیپ بجھا ڈالے ہیں امشب تاکہ
ساتھ جو چل نہ سکیں ترک محبت کر لیں
غزل
آمر عقل سے شہزادؔ بغاوت کر لیں
فرحت شہزاد