EN हिंदी
آماج گاہ تیر ستم کون ہم کہ آپ | شیح شیری
aamaj-gah-e-tir-e-sitam kaun hum ki aap

غزل

آماج گاہ تیر ستم کون ہم کہ آپ

نوح ناروی

;

آماج گاہ تیر ستم کون ہم کہ آپ
پھر پوچھتے ہیں آپ سے ہم کون ہم کہ آپ

دل حسن پر نثار تو کر دوں بجا درست
جھیلے گا اس کے بعد ستم کون ہم کہ آپ

دنیا سے اٹھ چکا تھا محبت کا اعتبار
قائم کیے ہوئے ہے بھرم کون ہم کہ آپ

دونوں نے اتحاد کی کوشش ضرور کی
لیکن رہا نباہ میں کم کون ہم کہ آپ

روز جزا جو داد طلب ہوں گے داد خواہ
اس دن کرے گا عذر ستم کون ہم کہ آپ

طوفان اشک نوحؔ کا رکنا محال ہے
انجام دے یہ کار اہم کون ہم کہ آپ