عالمؔ جیون کھیل تماشہ دانائی نادانی ہے
تب تک زندہ رہتے ہیں ہم جب تک اک حیرانی ہے
آگ ہوا اور مٹی پانی مل کر کیسے رہتے ہیں
دیکھ کے خود کو حیراں ہوں میں جیسے خواب کہانی ہے
آوازوں کا جنگل بھی ہے سناٹوں کا صحرا بھی
ایک طرف آبادی مجھ میں ایک طرف ویرانی ہے
اس منظر کو آخر کیوں میں پہروں تکتا رہتا ہوں
اوپر ساکت چٹانیں ہیں تہ میں بہتا پانی ہے
میرے بچو اس خطے میں پیار کی گنگا بہتی تھی
دیکھو اس تصویر کو دیکھو یہ تصویر پرانی ہے
عالمؔ مجھ کو بیماری ہے نیند میں چلتے رہنے کی
راتوں میں بھی کب رکتا ہے مجھ میں جو سیلانی ہے
غزل
عالمؔ جیون کھیل تماشہ دانائی نادانی ہے
عالم خورشید